بعثت پیامبر ص کے اھداف ومقاصد

Sun, 04/16/2017 - 11:17

بعثت پیامبر حقیقت میں انسانیت کی سب سے بڑی عید ہے جس دن خداوند متعال نے اپنے پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قیامت تک انسانیت کی ہدایت کا بندوبست کیا ۔بعثت پیمبر ص کے حوالے سے ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم بعثت کے اھداف ومقاصد کو سمجھے اور اپنی زندگی میں ان اھداف کی محوریت میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں

بعثت پیامبر ص کے اھداف ومقاصد

۱۔ انسان سازی :
بعثت پیمبر ص کا بنیادی ھدف انسان کی انفرادی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم میں کئی آیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیہ 164 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اللہ نے مومنین پر انہیں میں سے رسول بھیج کر احسان کیا ہے جو آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کی نفسوں کو پاک کرتا ہے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے (1)
یہ تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم درحقیقت وہی انسان کی اندرونی تبدیلی اور انقلاب ہے۔ انسان کیلئے اپنی خلقت کے حقیقی مقصد تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی انفرادی زندگی کے بارے میں بعثت انبیاء کے اہداف کی تکمیل کرے۔ یعنی اپنے اندر بنیادی تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے باطن کی اصلاح کرے اور خود کو تمام برائیوں اور پستیوں اور ان تمام خواہشات سے نجات دلائے جو انسان کے اندر موجود ہیں اور دنیا کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ ہدف انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: "انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق"۔ یعنی میں اعلی اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔ انسان کا حقیقی مقصد اس اعلی اخلاق کی جانب پلٹنا ہے۔ یعنی تہذیب نفس انجام دینا ہے۔ انسان کو حکمت کی جانب لے جانا ہے۔ اسے جہالت سے نکال کر حکیمانہ زندگی اور فہم و فراست کی جانب لے جانا ہے۔

۲۔ ظلم ستیزی اور عدالت کا قیام:
انسان کی اجتماعی زندگی سے متعلق بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہدف اجتماعی عدالت و انصاف کا تحقق ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے: بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کیساتھ بھیجا اور انھیں کیساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگوں میں عدل وقسط قائم کرین

"قسط" اور "عدل" میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ عدل کا مفہوم عام ہے یعنی وہی اعلی اور برتر مفہوم جو انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی اور روزمرہ حوادث میں پایا جاتا ہے۔ عدل کا مطلب ہے صحیح طرز عمل، معتدل ہونا اور اعتدال کی حد کو پار نہ کرنا۔ لیکن قسط کا مطلب اسی عدالت کو اجتماعی روابط میں اجراء کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اجتماعی عدالت اور انصاف کا نام دیتے ہیں۔ یہ عدل کے عام مفہوم سے مختلف ہے۔ اگرچہ انبیای الہی کا بنیادی ہدف اسی عدل کے عام مفہوم کو تحقق بخشنا تھا کیونکہ "بالعدل قامت السموات و الارض"۔ آسمان اور زمین عدل کی برکت سے ہی استوار ہیں۔ لیکن وہ چیز جس کی وجہ سے انسانیت کو آج تمام مشکلات کا سامنا ہے اور بشریت اس کی پیاسی ہے اور اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں "قسط" ہے۔ قسط یعنی یہ عدل و انصاف انسانی کی اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہو جائے۔ انبیاء علیھم السلام اسی مقصد کیلئے مبعوث ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:
1:آل عمران کی آیہ 164(لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمہ)
2:"لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط"۔ [سورہ حدید، آیہ 25]۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 68