حضرت عباس(علیہ السلام) کا اخلاص اور صبر

Wed, 06/07/2017 - 10:38

خلاصہ:حضرت عباس(علیہ السلام) اللہ کے اتنے خالص اور نیک بندے تھے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں اپنے زمانے کے امام کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دیدی اور ذرا برابر بھی اپنی جان کے بارے میں نہیں سونچا۔

حضرت عباس(علیہ السلام) کا اخلاص اور صبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     شجاعت، ایمان، اطاعت، صبر اور اخلاص کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک نام بہت زیادہ واضح اور روشن نظر آتا ہے فضل و کمال میں، قوت اور جلالت میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو اخلاص، استحکام، ثابت قدمی اور استقلال میں تمام لوگوں کے لئے نمونہ ہے اور ہراچھی صفت جو انسان کی بزرگی کوعروج عطا کرتی ہے وہ سب صفتیں اس کے اندر دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کو درس اطاعت، وفاداری، جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔
     تاریخ، حضرت عباس(علیہ السلام) کے اس اخلاص، صبر کو کبھی بھی نہیں بھلا سکتی، اس لئے اس مختصر سے موضوع میں حضرت عباس(علیہ السلام) کی دو ایسی صفات کو بیان کیا جارہا ہے جو بہت کم کسی شجاع انسان میں پائی جاتی ہے کیونکہ شجاعت کے ساتھ صبر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے حضرت عباس(علیہ السلام) جیسا امام کی اطاعت اور اتباع کرنے والا دل چاہئے ہوتا ہے جو اپنی رائے کو امام کی رائے پر مقدم نہ کریں۔
     حضرت عباس(علیہ السلام) اللہ کے اتنے خالص اور نیک بندے تھے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں اپنے زمانے کے امام کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دیدی اور ذرا برابر بھی اپنی جان کے بارے میں نہیں سونچا۔ حضرت عباس(علیہ السلام) کی یہ قربانی ان کے اخلاص کی بہترین دلیل ہے کیونکہ انسان کے لئے سب سے زیادہ عزیز اس کی زندگی ہی ہوتی ہے، حضرت عباس(علیہ السلام) کا رجز اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتا ہے: «والله ان قطعتم يميني اني احامي ابدا عن ديني[۱] خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے میرے سیدھے بازو کو کاٹ ڈالا تب بھی میں اپنی دین کا دفاع کرونگا»۔
     اس رجز میں حضرت عباس(علیہ السلام) کا مقصد واضح طور پر نظر آرہا ہے جس سے حضرت عباس(علیہ السلام) کا اخلاص سمجھ میں  آتا ہے۔
     حضرت عباس(علیہ السلام) کے اندر دوسری واضح اور بہترین صفت آپ کا صبر تھا، حضرت عباس(علیہ السلام) صبر کے بہت بلند درجہ پر فائز تھے، اگر آپ کے پاس کچھ نہ ہو اور آپ اس پر صبر کر رہے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اگر آپ کے پاس کچھ ہو اس کے بعد بھی آپ صبر کررہے ہیں تو یہ صبر کا بہت بڑا درجہ مانا جاتا ہے حضرت عباس(علیہ السلام) جس کے خون میں شجاعت دوڑ رہی تھی لیکن انھوں نے اتنی شجاعت کے باوجود کبھی اپنے صبر پر شجاعت کو غالب آنے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ امام کے حکم کے منتظر رہے،  جب بھی امام مجھے حکم دینگے میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھلاؤنگا، اسی لئے تو آپ کی زیارت میں  اس طرح وارد ہوا ہے: «السلام عليك ايها العبد الصالح المطيع لله و لرسوله، اشهد انك جاهدت و نصحت و صبرت حتي اتيك اليقين[۲] اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو، جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے جھاد کیا اور نصیحت کی اور صبر کیا یہاں تک کہ آپ کو یقین حاصل ہوگیا»۔
     انبیاء(علیہم السلام) اور ائمہ(علیہم السلام) کے علاوہ صرف حضرت عباس(علیہ السلام) کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام، امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے اس  زیارت میں دی ہے، امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے حضرت عباس(علیہ السلام) کو: العبد الصالح؛ یعنی عبد صالح، سے خطا ب فرمایا ہے،  ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں ﴿عباد الصالحین﴾ پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں: السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ؛یعنی ہمارے اوپر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو،اس سلام میں انبیاء(علیہم السلام) اور ائمہ(علیہم السلام) کے ساتھ ساتھ حضرت عباس(علیہ السلام) بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں۔
     علامه مامقاني حضرت عباس(علیہ السلام) کے بارے میں فرماتے ہیں: «وقد کان من فقهاء اولاد الائمه[۳]؛ حضرت عباس(علیہ السلام) ائمہ(علیہم السلام) کی اولاد میں فقهاء میں سے تھے»۔

نتیجہ:
     حضرت عباس(علیہ السلام) نے اپنے شجاعت کے باوجود صبر اور اخلاص کے نمونے پیش کئے کے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ہم سب کا حضرت عباس(علیہ السلام) کی اطاعت کرتے ہوئے  ہر حالت میں صبر کرنا چاہئے اور ہمیشہ ہر عمل کو اخلاص کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۴۵، ص۴۰، دار إحياء التراث العربي بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲] کامل الزیارات، ابن قولویہ، ص۲۵۷، دارالمرتضوی،  نجف اشرف، ۱۳۶۵ش۔
[۳] فرسان الهيجاء، الشيخ ذبيح الله المحلاتي،  ج۱، ص۲۰۰،  المكتبة الحيدريّة،  شريعت۔

 

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     حضرت عباس(علیہ السلام) اللہ کے اتنے خالص اور نیک بندے تھے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں اپنے زمانے کے امام کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دیدی اور ذرا برابر بھی اپنی جان کے بارے میں نہیں سونچا۔ حضرت عباس(علیہ السلام) کی یہ قربانی ان کے اخلاص کی بہترین دلیل ہے کیونکہ انسان کے لئے سب سے زیادہ عزیز اس کی زندگی ہی ہوتی ہے، حضرت عباس(علیہ السلام) کا رجز اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتا ہے: «والله ان قطعتم يميني اني احامي ابدا عن ديني[بحار الانوار، ج۴۵، ص۴۰] خدا کی قسم  اگر تم لوگوں نے میرے سیدھے بازو کو کاٹ ڈالا  تب بھی میں اپنی دین کا دفاع کرونگا»۔
     آپ کی زیارت میں اس طرح وارد ہوا ہے: « السلام عليك ايها العبد الصالح المطيع لله و لرسوله، اشهد انك جاهدت و نصحت و صبرت حتي اتيك اليقين[کامل الزیارات،  ص۲۵۷] اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو، جس نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے جھاد کیا اور نصیحت کی اور صبر کیا یہاں تک کہ آپ کو یقین حاصل ہوگیا»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۴۵، ص۴۰، دار إحياء التراث العربي بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
کامل الزیارات، ابن قولویہ، ص۲۵۷، دارالمرتضوی،  نجف اشرف، ۱۳۶۵ش۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 34