ولی فقیہ عالمِ دین بھی اور سیاستداں بھی

Sun, 04/14/2019 - 15:08

خلاصہ: دین اسلام نے دینی مسائل بھی بتائے ہیں اور سیاست کی بھی تعلیم دی ہے، لہذا وہی شخص عدل پر بناء پر حکومت کرسکتا ہے جو دین میں فقیہ بھی ہو اور اسلام کے بتائے گئے سیاسی نظام کو بھی بخوبی جانتا ہو۔

ولی فقیہ عالمِ دین بھی اور سیاستداں بھی

دین اسلام ایسا جامع اور مکمل دین ہے جس میں دین اور سیاست دونوں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے جو ولی فقیہ ہے وہی مذہی رہنما ہوسکتا ہے، وہی دینی اور سیاسی قیادت کے عہدہ کو سنبھال سکتا ہے۔
لہذا جنہوں نے مسئلہ خلافت کو حل کرنے کے لئے دین اور سیاست میں جدائی ڈال کر ایک شخص کو دینی خلیفہ سمجھ لیا اور دوسرے کو سیاسی خلیفہ، تو انہوں نے مسئلہ خلافت کو حل نہیں کیا، بلکہ  دین اسلام کی تعریف کو بدل دیا ہے، کیونکہ دین اسلام ایسا دین نہیں ہے کہ جس کی دیانت اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہوجائے۔ دین اسلام تب دین اسلام ہے کہ جو شخص لوگوں کی دینی و مذہبی قیادت و رہبریت کررہا ہے وہ سیاسی قیادت و رہبریت بھی کرے، اس لیے کہ دینی قیادت تب کی جاسکتی ہے کہ سیاست کی باگ ڈور بھی اسی دینی قائد کے ہاتھ میں ہو، اور سیاست کیا ہے؟
سیاست وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے دین اسلام اور عدل و انصاف کو معاشرے میں قائم کیا جاسکے اور دین اسلام کی ہمہ گیریت یہ ہے کہ خود دین اسلام ہی بتاتا ہے کہ کیسی سیاست یعنی کیسے طریقہ کار کو اختیار کیا جائے تا کہ معاشرے میں دین اور عدل و انصاف قائم ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ دین صرف عبادت کا طریقہ کار بتاتا ہے اور عدل و انصاف اور حق لینے دینے کے مسائل کو وہ لوگ حل کریں جن کا عمل کے میدان میں دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اپنا روزگار چلانے کے لئے کسی سیاسی عہدہ پر بیٹھ جائیں۔
سیاست روزگار اور ذریعہ معاش نہیں ہے، بلکہ ایسی ذمہ داری ہے جس کو ادا کرنے کے لئے دین کے مختلف پہلووؤں کے بارے میں عالم و فقیہ ہونا ضروری ہے۔ ولی فقیہ اسلامی احکام کو بھی جانتا ہے اور ان کو معاشرے میں جاری اور قائم کرنے کے طریقے اور سیاست کو بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی جانتا ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 16