حقیقی امداد اور نصرت فقط خدا کی جانب سے ہے، خداوند متعال نے قران کریم میں فرمایا : «وَ مَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزيزِ الْحَكيم؛ اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اللہ ہی صاحب عزّت اور صاحب حکمت ہے ۔ » (1) کیوں کہ پوری ہستی اور پورے جہان میں فقط و فقط خداوند متعال کی ذات ہی ایک ایسی ذات ہے جو قادر مطلق اور سب سے زیادہ طاقتور ہے ، کوئی بھی اس کے ارادہ کے مقابل نہیں ٹک سکتا اور وہ اس قدر علیم و حکیم ہے کہ اپنی امداد بجز لائق و شائستہ افراد کے کسی کے شامل حال نہیں کرتا یعنی نالائق اورغیر شائستہ افراد کو اس کی امداد نصیب نہیں ہوتی، (2) البتہ ضعیف الایمان لوگ ہرگز اس کی امداد کو نہیں سمجھ سکتے ، لہذا وہ سست اور ضعیف الایمان جو پیغمبر کے حق میں خدا کی امداد کو نہیں سمجھ پائے ان کے سلسلہ میں قران کریم کا ارشاد ہے کہ : «مَنْ كانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّماءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ ما يَغيظُ ؛ جس شخص کا خیال یہ ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہئے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان کی طرف بڑھے اور پھر اس رسی کو کاٹ دے اور پھر دیکھے کہ اس کی ترکیب اس چیز کو دور کرسکتی ہے یا نہیں جس کے غصّہ میں وہ مبتلا تھا ۔ » (3)
قران کریم نے مختلف جگہوں اور مقامات پر اپنے پرہیزگار بندوں اور متقی افراد کے حق میں غیبی امداد کا تذکر کیا ہے ، جیسا کہ جب خداوند متعال نے جناب موسی اور ہاورن کو حکم دیا کہ فرعون کے مقابلہ میں جائیں تو یہ ایک عظیم کام تھا ، تعداد کے حوالے سے وہ فقط دو ہی انسان تھے جنہیں ایک طاقتور ، وقت کے حکمراں اور جاہ حشم والے انسان کے مقابل جانے کا حکم تھا ، فرعون کی طاقت کوئی معمولی طاقت نہ تھی بلکہ فرعون سیاسی ، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے ایک عظیم طاقت کا مالک تھا ، اس جو دل کرتا اسےانجام دیتا تھا "فعّال مایشاء" ، مگر حکم الھی ہوا کہ اے موسی و ہارون تم دونوں جاو «قالَ لا تَخافا إِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ وَ اَرىٰ ؛ [ خدا نے کہا اے موسی و ہارون] ڈرو مت میں تمھارے ساتھ ہوں ، میں سننے والا اور با بصیرت یعنی دیکھنے والا ہوں ۔» (4) کیوں کہ «إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذینَ اتَّقَوا ؛ بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقوٰی اختیار کیا ہے اور جو نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔ » (5) اس ایت کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ اگر متقی دو ادمی بھی ہوں تو خدا کی امداد پر بھروسہ کرتے ہوئے فرعون جیسے طاقتور سے مقابلے کیلئے خالی ہاتھ جاسکتے ہیں کیونکہ اگر ہم تقوائے الہی رکھتے ہوں گے تو خدا ہمارے ساتھ ہے ۔
اسلامی جمھوریہ ایران کی عوام کو بھی قران کریم میں موجود خداوند متعال کے وعدہ اور امام خمینی (رہ) کے روشن اور راہنما بیان پر مکمل ایمان و اعتقاد تھا اسی لئے وہ شیطانی اور استکباری طاقت کے مقابل کھڑے ہوگئے ، اس ایمان کو ان کی جانفشانیوں اور قربانیوں میں دیکھا اور مکمل طور سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: [انفال/10]
2: مكارم شيرازى، ناصر؛ تفسير نمونہ، پبلیشر: دار الكتب الإسلامية، تہران، سن طباعت: 1374، ج7، ص104.
3: قران کریم ، سورہ حج ، ایت 15
4: قران کریم ، سورہ طہ ، ایت 46
5: قران کریم ، سورہ نحل ، ایت 128
Add new comment