حضرت امام خمینیؒ نے اسی زمانہ میں ان تبدیلیوں پر غائرانہ نظرڈالی اور وہ اس سلسلہ میں فکر مند تھے کہ ایسانہ ہو کہ مشرقی بلاک کا زوال مغربی بلاک کی کامیابی ثابت ہواور مشرقی بلاک کے ممالک بھی مغرب اور امریکہ کی آغوش میں چلے جائیں اورمغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو نمونہ بنانے کی تشویق ہو۔انہوں نے گورباچوف کے نام لکھے گئے اپنے ایک تاریخی خط میں اسے ان خطرات سے آگاہ کیا اورمشرقی بلاک کی اصلی مشکل یعنی خداسے جنگ کے بارے میں اسے توجہ دلائی اور پوری طاقت سے اعلان کیا کہ اسلام کا سب سے بڑا اور طاقتوار مرکز،اسلامی جمہوریہ ایران سوویت یونین کے عوام کے عقیدتی خلاء کو پر کرسکتا ہے ۔
دودہائیوں کے دوران اسلامی انقلاب کے اثرات اور انعکاس صرف ایران کے اندر،مشرق وسطیٰ یاعالم اسلام تک محدود نہیں تھے، بلکہ ایسالگتاہے کہ اس انقلاب نے علاقہ سے بالاتر بالخصوص بین الاقوامی نظام پر بھی اپنے اثرات ڈالے ہیں ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب ایک ایسے زمانہ میں رونما ہوا ،جب دنیاپر دوقطبی نظام حاکم تھا اور دنیا مشرق ومغرب کے دو بلاکوں میں تقسیم ہوئی تھی۔دنیاکی دو بڑی طاقتیں یعنی امریکہ اورسوویت یونین نے ان دوبلاکوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔اگرچہ ۱۹۵۷ءمیں تیسری دنیا یاغیرجانبدارممالک کے نام پر چند ملکوں کا اتحاد وجود میں آیاتھا اور رفتہ رفتہ تشکیل پارہاتھا ،لیکن یہ اتحادہرگز دوقطبی نظام کے سسٹم پر کوئی اثر نہ ڈال سکا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دوقطبی نظام کے وجود میں آنے کے زمانے سے یہ مسئلہ زیربحث تھا اور عملاًاس پر تجربہ ہو رہاتھا کہ دنیامیں پیدا ہونے والا ہرحادثہ اور تبدیلی یا مختلف ممالک کے نظاموں میں پیدا ہونے والی ہر تغییر دوبلاکوں میں سے ایک کی طاقت کے توازن کو نفع یانقصان کی صورت میں تغیر دے سکتی ہے ۔لہذا ان دوبڑی طاقتوں کا مقابلہ اس حادثہ کے وجود میں آنے اوراس کے طریقہ کارکے دائرے میں قابل توجہ ہے ۔دوقطبی نظام کا چالیس سالہ تاریخی تجربہ اس نظریہ کی تائید کرتا ہے۔
۱۹۴۹ءمیں انقلاب چین کی کامیابی ،۱۹۵۲ء میں کوریا کی جنگ،مشرق وسطیٰ کے عرب علاقوں میں فوجی بغاوتیں ،مجارستان کا بحران،برلین کی دیوار ،کیوبا کے میزائل کا بحران اور اسی طرح ویٹنام کی جنگ من جملہ حوادث اوراتفاقات تھے جو دوبڑی طاقتوں میں سے ایک کی حمایت کے نتیجہ میں رونما ہوئے اور ٹکراؤ کا سبب بنے ۔
قابل ذکربات ہے کہ ایران میں انقلاب سے پہلے رونما ہونے والے حوادث میں بھی ان دو بڑی طاقتوں کی رقابت واضح طورپر دیکھنے میں آتی ہے ۔مثال کے طور پر اس سلسلہ میں روسی فوجیوں کے توسط سے آذربایجان پر تسلط کا سلسلہ ،تیل کو قومیانے کی تحریک ۲۸مرداد(۱۹ اگست)کی سازش اور ۱۹۵۰ء کی دہائی کے حوادث کا نام لیا جاسکتا ہے ۔اگر چہ۱۹۵۳ء کی تختہ الٹنے کی سازش کے بعد ایران کو مغربی بلاک کے ایک حصہ کے طورپر پہچانا جاتا تھااور مغرب کے فوجی ،سیاسی اور اقتصادی معاہدوں میں رکنیت حاصل کرنے کی وجہ سے اس کا اٹوٹ انگ شما ر ہوتاتھا ،لیکن اس کے باوجود ایران کی ۲۵۰۰کلو میٹر سرحد مشرق کی بڑی طاقت سے مشترک ہونے اور غیر معمولی سوق الجیشی حالات کے پیش نظر سوویت یونین کی حکومت ایران کے مسائل کے بارے میں بے خیال نہیں رہ سکتی تھی اور عام طورپر ایران کے خارجی مسائل کے بارے میں رد عمل ظاہرکرتی تھی ۔
امام خمینیؒ کی رہبری میں اسلامی تحریک کے آغاز سے ۵؍جون ۱۹۶۳ء کو اس کے عروج تک پہنچنے کے باوجود امام ؒ کے حملوں کا نشانہ اکثر امریکہ ہوا کرتا تھا ،پھربھی یہ امر سوویت یونین کے لئے اس امریکہ مخالف تحریک کے بارے میں مثبت موقف اختیار کرکے اس کی حمایت کرنے کا سبب نہیں بنا ۔سوویت یونین نے نہ صرف اس تحریک کی حمایت نہیں کی ،بلکہ انتہائی حیرت انگیز حالت میں مشاہدہ کیا گیا کہ اس عوامی انقلاب کے خلاف امریکہ کے متحد ممالک کی طرح منفی موقف اختیار کیا۔ یہ پالیسی درج ذیل دومسائل کی وجہ سے تھی :
۱۔تحریک کی دینی اور اسلامی ماہیت ۔مشرق ومغرب کی طاقتیں آپس میں اختلافات رکھنے کے باوجود دینی بالخصوص اسلامی تحریکوں کے خلاف مشترک موقف رکھتی ہیں ۔
۲۔حضرت امام خمینیؒ نے اپنی تحریک کے آغاز پر ہی ان دو بڑی طاقتوں کے بارے میں اپنے موقف کا اعلان کیا تھا اور اپنا وہ معروف جملہ کہاتھا :‘‘امریکہ انگلستان سے بدتر ہے ،انگلستان امریکہ سے بدتر ہے اور سوویت یونین دونوں سے بدتر ہے سب ایک دوسرے سے پلید تر ہیں ،لیکن آج ہمارا سروکاران خبیثوں سے ہے ،امریکہ سے ہے ۔[1]’’اور یا یہ مطلب کہ ‘‘ہم بین الاقوامی کمیو نزم کے ساتھ اسی قدر بر سر پیکار ہیں جس قدر امریکہ کی سر کردگی میں مغربی سامراجوں کے ساتھ ہیں ۔[2]’’
ان جملوں میں دوبڑی طاقتوں کے لئے یہ پیغام تھا کہ دونوں طاقتیں اس تحریک کے عروج تک پہنچنے اور کامیاب ہونے سے نقصان اٹھا چکی ہیں اور اس انقلاب نے عالمی نظام میں ان کی برتری کو چیلنج کیا ہے ۔
اسلامی انقلاب کے ۱۹۷۸ء اور۱۹۷۹ء میں عروج تک پہنچنے اور‘‘نہ شرقی نہ غربی،جمہوری اسلامی ’’کانعرہ بلند کر نے کے پیش نظر دونوں بڑی طاقتوں کی طرف سے شاہ کی حمایت اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں بالخصوص زبر دستی لادی گئی جنگ کے دوران عراقی حکومت کی مشترکہ طور پر حمایت نے ثابت کیا کہ اسلامی انقلاب دوقطبی نظام کے لئے قابل برداشت نہیں ہے بلکہ انقلابی مسلمانوں کے توسط سے حاصل کی گئی کامیابی اور عوامی فوج اور رضاکاروں کی عراق ایران جنگ کے دوران استقامت اورپائیداری نے دوقطبی نظام کی بنیادوں کی کمزوری کو ثابت کیا ۔
شائد یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کی دوبڑی طاقتوں میں سے کسی ایک پر بھروسہ نہ کرنے کی پالیسی دوقطبی نظام کے زوال میں موثر تھی ۔
میخائیل گورباچوف کے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور سوویت یونین کے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے برسر اقتدار آنے اور‘‘پرسترویکا’’اور‘‘گلاس نوست’’پر مبنی سیاست کو پیش کرنے کے نتیجہ میں مشرقی بلاک اور اسی کے ساتھ دو قطبی نظام کے زوال کے آثار نمودار ہونے لگے ۔
حضرت امام خمینیؒ نے اسی زمانہ میں ان تبدیلیوں پر غائرانہ نظرڈالی اور وہ اس سلسلہ میں فکر مند تھے کہ ایسانہ ہو کہ مشرقی بلاک کا زوال مغربی بلاک کی کامیابی ثابت ہواور مشرقی بلاک کے ممالک بھی مغرب اور امریکہ کی آغوش میں چلے جائیں اورمغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو نمونہ بنانے کی تشویق ہو۔انہوں نے گورباچوف کے نام لکھے گئے اپنے ایک تاریخی خط میں اسے ان خطرات سے آگاہ کیا اورمشرقی بلاک کی اصلی مشکل یعنی خداسے جنگ کے بارے میں اسے توجہ دلائی اور پوری طاقت سے اعلان کیا کہ اسلام کا سب سے بڑا اور طاقتوار مرکز،اسلامی جمہوریہ ایران سوویت یونین کے عوام کے عقیدتی خلاء کو پر کرسکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیفہ نور،ج۱ ،ص۱۰۵
[2] صحیفہ نور،ج۱۲،ص۱۲
Add new comment