حادثہ شہادت کا پیش خیمہ (۱)

Mon, 05/20/2024 - 08:33

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

نیلے آسمان کے نیچے، سفید بادلوں کے درمیان، سرد موسم اور بھینی بھینی خوشبوؤں کی معطر فضاؤں نے شہیدوں کا استقبال کیا ، خبروں میں بتایا گیا کہ حادثہ ہوا منظر غمناک تھا ، دل دہلا دینے والا ، رونگٹے کھڑے کردینے والا ، یہاں تک کے ملت ایران بالخصوص اور ملت تشیع بالعموم لرزہ براندام ہوگئی ، ہر شریف آدمی بشریت کے تقاضے کے تحت اشکبار ہوگیا ۔

مگر جسے ہم حادثہ کی تعبیر سے یاد کرتے ہیں وہ در حقیقت شہادت کا الہی نظام ہے جو کبھی زمینوں پر تو کبھی آسمانوں پر کیا جاتا ہے ، سفید برفیلی پہاڑیوں میں خون کی سرخی سے لکھی جانے والی تحریر حریت پسند نگاہوں نے پڑھی تو شفق کے ماتھے پر سجی خون شہداء کربلا کی لالی و سرخی کا یہ وہ صدقہ نظر آیا جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے ۔

صاحب کردار عظیم ، بستر علالت پر دم نہیں توڑتا سفر شہادت کا سفیر بنتا ہے یا راہ شہادت کا راہ گیر کہلاتا ہے  ۔ ’’مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَى دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ ؛ علماء کا قلم شھداء کے خون کے برابر ہے‘‘ (۱) ، کے عقیدہ کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے ، مگر صدر ابراہیمی کا قاضی القضات کے عہدے سے صدارت کی سفارت اور پھر شہادت پر اختتام ، ان کے قلم کی روشنائی  اور جسم نازنیں کے ٹکڑوں کا فضاوؤں میں بکھرنا ان کے فیصلوں کی عبارات آرائی ہے ، جسے چشم بینا سے دیکھا جاسکتا ہے ۔

عظیم عہدوں اور منصوں کا استحقاق رکھنے والے صدر ابراہیمی اپنے آپ کو اسم با مُسمی ثابت کر گیا ، وہی عزم ابراہیمی، وہی صفت کا سرالاصنامی، وہی پرستار توحیدی اور وہی حوصلوں کی لمبی لمبی اڑان کے جس نے میدان شہادت بھی زمیں کو نہیں آسمان کو منتخب کیا ۔

جس کے لہجہ کی دھمک یُو اِین اُو (UNO) کی پارلمینٹ میں سنائی دیتی ہے جو اپنے خطاب میں عظمت قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہیکہ تاریخ کو ایک بیمار و ناتواں کی زنجیر کی جھنکار سنائی دینے لگتی ہے ، تکلم کی دہلیز پر قدم زن ہو کر خاک پائے عابد بیمار کو سرمہ گیں کرکے آنکھوں میں عزم سجادیہ کی روشنی، چہرے پر وجہ اللہ کے نور کی چمک کی  خیرات کا اثر اور شہادت میں  قطرہ خون کربلا کے ابال  کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

صدر رئیسی کا پارلمینٹ میں تاریخی خطاب دربار شام کی یاد تازہ کردیتا ہے ، زمان و زمین کا فرق ضرور ہے مگر نسلوں کا تسلسل حوصلوں کی اڑان کا پتہ ضرور دیتا ہے ، جسکی دلیل اسکے ماتھے پر سجے سیاہ عمامے کے تاج کرامت سے لگایا جا سکتا ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: شیخ طوسی ، امالی ، ج۱، ص۵۲۱ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22